Despite massive devaluation of Pak Rupee, exports of the country are not increasing accordingly. Internationally there is a pattern if the currency is devalued by 5% , exports increase by 10%. In our country no such formula applies. As a result economy of the country is not showing any positive sign rather the inflation is going up. This is a matter of concern for the government. If corrective measures are not taken timely, it is apprehended that such a dismay situation will continue in the remaining period also of the government. It is, therefore, proposed that:
"پوری دنیا کروناوائرس کی وجہ سے پریشان ہے، حتیٰ کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اور پاکستان نہ صرف کرونا کی وجہ سے پریشان ہے بلکہ اقتصادی طور پر بھی مشکلات کا شکار ہے۔ مگر ہم نے ہمت نہیں ہاری اور ہم کرونا لاک ڈاؤن سے متاثرہ اپنی معیشت کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے اقدامات کرتے رہیں گے۔"
یہ الفاظ ہیں پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے ریونیو، حماد اظہر کے جنہوں نے سال دو ہزار بیس۔اکیس کیلئے پاکستان کا بجٹ اسمبلی میں پیش کر دیا۔ اس بجٹ میں کوئی نئے ٹیکس نہیں لگائے گئے مگر ساتھ ہی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس بجٹ میں حکومت کی کوئی دوررس منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ تاجر طبقہ بھی بجٹ سے زیادہ مطمئن نظر نہیں آتا مگر بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ہر بجٹ کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، مگر اس مرتبہ کرونا وائرس کی وجہ سے قیمتوں کے مستحکم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوسکتا۔
پاکستان میں مائیکرو فنانس بنک کے سابق صدر اور مارکیٹنگ اور فنانس کے کنسلٹنٹ فائق حسین کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ایسا ہی بجٹ آ سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی آمدنی اور اخراجات کا فرق تین ہزار پانچ سو ارب روپے کا ہے اور اب زرِ مبادلہ اور برآمدات میں بھی کمی ہوئی ہے تو حکومت کے پاس مزید قرض لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں خواہ یہ قرض سٹیٹ بنک سے لیا جائے یا عام بنکوں سے۔
ڈاکٹر سلیری کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ مزید قرضے لے مگر اس سے بھی ضروری یہ بات ہے کہ وہ قرضے سٹیل ملز جیسے ناکام ہوتے اداروں کو سنبھالنے کیلئے نہیں بلکہ صحیح معنوں میں ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کیلئے بیرونی قرضوں سے زیادہ اندرونِ ملک لئے گئے قرضوں کی ادائیگی مشکل ہو رہی ہے۔
پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں پاکستان کو جی ٹوینٹی کے پروگرام کے تحت پیرس کلب کی جانب سے مہلت دی گئی ہے۔ یہ مہلت ایک سال کیلئے ہے اور ڈاکٹر عابد سلیری کہتے ہیں کہ یہ بھی کافی ہے حکومت کو کچھ وقت مل جائے گا۔
ماہرِ اقتصادیات قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستان کو وقتی سہولت حاصل ہوئی ہے اس لئے اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں ایشیا سٹڈیز کے ڈئریکٹر شکیل احمد رامے کہتے ہیں کہ پاکستان اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر یہ رقم اپنے فوری اخراجات میں استعمال کر سکتا ہے۔
اور فائق حسین کہتے ہیں کہ پاکستان نے ان قرضوں کی ادئیگی کیلئے صرف ایک سال کی مہلت حاصل کی، جبکہ ان کے خیال میں ایسا کم از کم تین سال کیلئے ہونا چاہئے تھا تاکہ پاکستان کے پاس ادئیگی کے قابل ہونے کی بہتر گنجائش ہوتی۔
فائق حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان کا زرعی شعبہ ملک کی آمدنی بڑھا سکتا ہے مگر اس کی جانب توجہ نہیں دی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا نے ملکوں کو نئی مصنوعات کی راہ دکھائی ہے مگر پاکستان میں ایسا کوئی رجحان نظر نہیں آتا۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ کسی بھی وباء میں تیزی آتی ہے، پھر کمی اور پھر تیزی آتی ہے اور پھر یہ ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں اس کے اثرات شدید ہیں، کیونکہ پاکستان میں عام حالات میں بھی صحتِ عامہ کی صورتِ حال زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔
Institute of Business Administration, Main Campus,
University Road, Karachi - 75270, Pakistan
Phone : 92-21-38102002
Website: https://alumni.iba.edu.pk
© All rights Reserved by IBA